وہ چنچل البیلی لڑکی میری نظمیں یوں پڑھتی ہے
جیسے اُن نظموں کا محور
اِس کی اپنی ذات نہیں ہے
یعنی اتنی سندر لڑکی اور کوئی بھی ہوسکتی ہے
جیسے اس کو علم نہیں یہ ساری باتیں، اس کی ہیں
ساری گھاتیں اس کی ہیں
ہر آہٹ ہے اس کی آہٹ، سب سائے ہیں اس کے سائے
سارے محمل اس کے ہیں
ہر خوشبو ہے اس کی خوشبو، سب چہرے ہیں اس کے چہرے
سارے آنچل اس کے ہیں
جیسے اس کو علم نہیں ہے اس لڑکی کے سارے کام
سارے نام اسی کے ہیں
ہر کھڑکی ہے اس کی کھڑکی سارے بام اسی کے ہیں
اس لڑکی کے نام سے میں نے جوکچھ اپنے نام لکھا ہے
اُس سے ہی منسوب ہوا ہے
(شاید میرا وہم ہو لیکن، میں نے یہ محسوس کیا ہے)
جب میں نظم سناتا ہوں، وہ آنکھ چرانے لگتی ہے
مجھ سے نظریں مل جائیں تو وہ شرمانے لگتی ہے
کچھ لمحے وہ چنچل لڑکی گُم سُم سی ہوجاتی ہے
لیکن تھوڑی دیر میں پھر سے پتھر کی ہوجاتی ہے
جسیے میری نظم کی لڑکی