امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے خلاف شدید ردعمل
وزیرستان، خیبر پختونخوا — پاکستان کے قبائلی ضلع وزیرستان میں حالیہ دنوں میں عوامی احتجاج شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس احتجاج کا بنیادی مقصد علاقے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال، بڑھتی ہوئی بدامنی، اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرنا ہے۔ مقامی آبادی، جن میں سماجی کارکنان اور سیاسی جماعتوں کے ورکرز شامل ہیں، نے سڑکوں پر آ کر اپنے حقوق کا مطالبہ کیا ہے اور ریاست سے امن کے قیام کے لیے مؤثر اقدامات کا تقاضا کیا ہے۔
گزشتہ چند ماہ سے وزیرستان، خاص طور پر شمالی اور جنوبی وزیرستان، دہشت گردی کی نئی لہر کی لپیٹ میں ہے۔ عوامی احتجاج کی ایک بڑی وجہ نامعلوم ڈرون حملے اور سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے دوران عام شہریوں کا جانی و مالی نقصان ہے۔ مئی 2025 میں شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں مبینہ ڈرون حملے میں چار بچوں کی ہلاکت نے شدید عوامی غم و غصہ پیدا کیا، جس کے بعد ہزاروں افراد نے لاشوں کے ساتھ سڑکوں پر دھرنا دیا اور انصاف کا مطالبہ کیا۔
احتجاج کی وجوہات اور عوامی مطالبات
1. بدامنی میں اضافہ: مقامی افراد کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد سے علاقے میں حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔ عسکریت پسندوں کی موجودگی اور حملوں میں تیزی آئی ہے، جس سے عام لوگوں کی زندگی متاثر ہوئی ہے۔
2. شہری نقصانات: سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے دوران “کولیٹرل ڈیمیج” (Collateral Damage) کے واقعات، جن میں بے گناہ شہریوں کا نقصان ہوتا ہے، احتجاج کی ایک اہم وجہ ہیں۔ چونکہ عسکریت پسند اکثر سویلین آبادی میں پناہ لیتے ہیں، اس لیے جھڑپوں کی صورت میں عام شہری متاثر ہوتے ہیں۔
3. اقتصادی مشکلات: پاک افغان سرحد کی گزشتہ نو ماہ سے بندش نے علاقے کے روزگار کو تباہ کر دیا ہے، جس سے مقامی آبادی میں شدید مالی مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ لہٰذا، لوگ سرحد کی دوبارہ کشادگی کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ ان کا کاروبار بحال ہو سکے۔
4. ریاستی اداروں کی استعداد: مظاہرین پولیس، مقامی انتظامیہ اور عدلیہ کی استعداد بڑھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ وہ امن قائم کرنے اور انصاف فراہم کرنے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوں۔
پیش رفت اور حکومتی ردعمل
ماضی میں بھی وزیرستان کے قبائل نے بدامنی کے خلاف احتجاج کیے ہیں۔ اگست 2022 میں شمالی وزیرستان میں عثمان زئی قبیلے نے سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک کمیٹی سے کامیاب مذاکرات کے بعد اپنا دھرنا ختم کیا تھا۔ کمیٹی نے قبائل کے مسائل وزیراعظم کے سامنے رکھنے اور پندرہ دن میں ازالے کی یقین دہانی کروائی تھی۔
حالیہ احتجاج کے تناظر میں، حکام نے شمالی وزیرستان میں متعلقہ حکام سے بات چیت کی ہے۔ انہیں “کولیٹرل ڈیمیج” کے خدشات سے آگاہ کیا گیا ہے۔ تاہم، ابھی تک احتجاج کو مکمل طور پر ختم کرنے کے حوالے سے کوئی بڑی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ عوامی حلقے حکومت سے طویل المدتی حکمت عملی اور مؤثر حل کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ وزیرستان میں دیرپا امن قائم ہو سکے۔
ماخذ: یہ معلومات ڈی ڈبلیو اردو، انڈیپینڈنٹ اردو، ڈان نیوز اردو، وائس آف امریکہ اردو اور مقامی میڈیا رپورٹس سے حاصل کی گئی ہیں۔