بدو کا شہری کے ہاں مہمان بننا
کہتے ہیں ایک بدو کسی شہری کا مہمان ہوا۔
میزبان نے ایک مرغی ذبح کی۔
جب دسترخوان بچھ گیا تو سب آموجود ہوئے۔
میزبان کے گھر میں کل چھ افراد موجود تھے:
■ دو میاں بیوی
■ دو ان کے بیٹے
■ اور دو بیٹیاں
بدو سے کھانے کی تقسیم کروانے کا منصوبہ
میزبان نے بدو کا مذاق اڑانے کا فیصلہ کرلیا۔
اس نے کہا، “آپ ہمارے مہمان ہیں، کھانا آپ تقسیم کریں۔”
بدو بولا، “مجھے اس کا کوئی تجربہ نہیں، لیکن اگر آپ کا اصرار ہے تو کوئی بات نہیں۔ لائیے، میں ہی تقسیم کر دیتا ہوں۔”
مرغی کی پہلی تقسیم
بدو نے یہ کہہ کر مرغی اپنے سامنے رکھی۔
اس کا سر کاٹا اور میزبان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:
“آپ گھر کے سربراہ ہیں، لہذا مرغی کا سر ایک سربراہ کو ہی زیب دیتا ہے۔”
پھر مرغی کا پچھلا حصہ کاٹا اور کہا:
“یہ گھر کی بیگم کے لیے۔”
اس کے بعد مرغی کے دونوں بازو کاٹے اور کہا:
“بیٹے اپنے باپ کے بازو ہوتے ہیں، پس بازو بیٹوں کے لیے۔”
بدو نے بیٹیوں کی طرف دیکھا اور کہا:
“بیٹیاں کسی بھی خاندان کے وقار کی بنیاد ہوتی ہیں، اور سارے خاندان کی عزت ان کے وقار پر کھڑی ہوتی ہے۔”
یہ کہہ کر مرغی کے دونوں پاؤں کاٹے اور میزبان کی بیٹیوں کو دے دیے۔
پھر مسکرا کر کہنے لگا:
“جو باقی بچ گیا ہے وہ مہمان کے لیے۔”
میزبان کا شرمندگی سے برا حال تھا۔
اگلے دن پانچ مرغیوں کی تقسیم (طاق)
اگلے دن اس نے اپنی بیوی کو کہا کہ آج پانچ مرغیاں ذبح کرنی ہیں۔
بیوی نے ایسا ہی کیا۔
جب دسترخوان لگا تو اس پر پانچ بھنی ہوئی مرغیاں موجود تھیں۔
میزبان نے سوچا، “دیکھتے ہیں کہ آج یہ پانچ مرغیوں کو کس طرح تقسیم کرے گا؟”
اس نے کہا:
“ان مرغیوں کو سب افراد میں برابر تقسیم کر دیں۔”
بدو نے پوچھا:
“جفت یا طاق؟”
میزبان نے جواب دیا:
“طاق انداز میں تقسیم کرو۔”
بدو کی طاق تقسیم
بدو نے میزبان کی بات سن کر سر ہلایا۔
تھال سے ایک مرغی اٹھائی، میاں بیوی کے سامنے رکھی اور بولا:
“آپ اور آپ کی بیوی دو، اور ایک یہ مرغی، کل ملا کے تین۔”
پھر دوسری مرغی اٹھائی اور کہا:
“آپ کے دونوں بیٹے اور ایک مرغی، کل ملا کے یہ بھی تین۔”
اس کے بعد تیسری مرغی اٹھائی اور کہا:
“آپ کی دو بیٹیاں اور ایک مرغی، کل ملا کر یہ بھی تین ہو گئے۔”
اب تھال میں دو مرغیاں باقی تھیں۔
اس نے وہ مرغیاں اپنے سامنے رکھیں اور کہنے لگا:
“یہ دو مرغیاں اور ایک میں، یہ بھی تین ہو گئے۔”
میزبان بدو کی یہ تقسیم دیکھ کر ہکابکا رہ گیا۔
اگلے دن پانچ مرغیوں کی تقسیم (جفت)
اگلے دن اس نے پھر پانچ مرغیاں روسٹ کرنے کا بیوی کو کہا۔
جب سب لوگ دسترخوان پر بیٹھ گئے تو میزبان نے بھنی ہوئی پانچوں مرغیاں بدو کے سامنے رکھیں۔
اس نے کہا:
“آج بھی تقسیم آپ ہی کرو گے۔ لیکن آج تقسیم کی نوعیت جفت ہونی چاہیے۔”
بدو بولا:
“لگتا ہے کہ تم لوگ میری پچھلی تقسیم سے ناراض ہو۔”
میزبان نے وضاحت دی:
“ایسی کوئی بات نہیں۔ آپ تقسیم شروع کریں۔”
بدو کی جفت تقسیم
بدو نے مرغیوں کی طشتری سامنے رکھی۔
اس میں سے ایک مرغی اٹھائی اور کہنے لگا:
“ماں، اس کی دو بیٹیاں اور ایک مرغی، یہ ہوئے کل ملا کر چار۔”
یہ کہہ کر پہلی مرغی ان کی طرف بڑھا دی۔
اس کے بعد دوسری مرغی اٹھائی اور میزبان سے کہا:
“آپ، آپ کے دو بیٹے اور ایک مرغی، یہ بھی کل ملا کر چار ہوئے۔”
پھر تھال میں موجود باقی تین مرغیاں اپنی طرف کھسکاتے ہوئے بولا:
“میں اور یہ تین مرغیاں، یہ بھی کل ملا کر ہو گئے چار۔”
بدو کی شکر گزاری
اس کے بعد مسکرایا۔
بے بسی کی تصویر بنے اپنے میزبانوں کی طرف دیکھا۔
پھر آسمان کی طرف منہ کرتے ہوئے کہنے لگا:
“یا اللّٰه! تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تونے مجھے تقسیم کرنے کی اعلیٰ صلاحیت سے نوازا ہے۔”
(یہ عربی کی کہانی ہے، اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے)