وکیل کی کہانی جج کی زبانی

وکیل کی کہانی جج کی زبانی

وکیل کی کہانی جج کی زبانی


ایک غیر معمولی وکیل

سکردو کے ایک جج صاحب واقعہ سناتے ہیں کہ ان کی عدالت میں ایک نوجوان وکیل تھا۔ اس نے پی ایچ ڈی فزکس میں کی تھی لیکن وکالت کے شعبے سے منسلک تھا۔ وہ انتہائی ذہین اور مدلل انداز میں بات کرنے والا تھا۔ اس کی خاصیت یہ تھی کہ وہ ہمیشہ مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا۔

جج صاحب نے اس دوران کبھی اسے کیس ہارتے نہیں دیکھا۔ وہ اس کی سچائی کے اتنے قائل تھے کہ بعض اوقات بغیر دلیل کے بھی اس کی بات پر فیصلہ سنا دیتے، اور وہ فیصلہ درست ہوتا۔ پوری عدالت میں اس وکیل کا احترام کیا جاتا تھا۔


تجسس کا سوال

جج صاحب بتاتے ہیں کہ وہ وکیل اتنا قابل اور تعلیم یافتہ تھا کہ ہر کوئی اسے جج بننے کے قابل سمجھتا تھا۔ اس کے باوجود وہ وکیل ہی رہا۔ جج صاحب نے تجسس میں آ کر ایک دن اس سے پوچھ ہی لیا کہ تم جج کیوں نہیں بنتے؟


نانا کی قربانی

وکیل نے بتایا کہ اس کے نانا انتہائی غریب تھے۔ ان کے دو ہی بیٹیاں تھیں۔ انہوں نے بھٹے پر مزدوری کر کے بیٹیوں کی تعلیم اور شادیاں کروائیں۔ اس کی والدہ گورنمنٹ سکول میں ٹیچر لگ گئیں جبکہ خالہ کو ملازمت نہ ملی۔

نانا نے بھٹے سے قرض لے کر بیٹیوں کی شادیاں کیں۔ والدہ نے اخراجات سے بچت کر کے نانا کا قرض اتارا لیکن بعد میں والد نے انہیں روک دیا۔ پھر نانا خود قرض کے عوض مزدوری کرنے لگے۔


خالہ کی جدوجہد

خالہ کے ہاں اولاد نہ ہوئی تو سسرال میں ان پر ظلم بڑھ گیا۔ کئی بار انہیں مار پیٹ کر نکالا گیا۔ گاؤں والوں کی مداخلت پر واپس گئیں، لیکن پھر حالات بدتر ہوتے گئے۔ شوہر نے دوسری شادی کر لی اور شرط رکھی کہ خالہ کے اخراجات نانا اٹھائیں گے۔

نانا بیٹی کا گھر بچانے کے لیے مزید قرض لیتے گئے۔ ایک دن سائیکل پر جاتے ہوئے ٹرالے کے نیچے آ کر وفات پا گئے۔ ان کی موت کے بعد بھی قرض باقی تھا۔


والدہ کی قربانی

والدہ نے چوری سے اپنا زیور بیچ کر قرض ادا کیا اور تجہیز و تکفین کا بندوبست کیا۔ خاندان نے کوئی مدد نہ کی۔ نانا کی وفات کے بعد خالہ کو طلاق ہو گئی۔ انہیں نہ سامان واپس ملا، نہ زیور، نہ حق مہر۔


قانون کی بے بسی

والدہ اور خالہ نے عدالت کا سہارا لیا۔ ہائی کورٹ تک کیس لڑا مگر انصاف نہ ملا۔ ایک دن خالہ ہائی کورٹ سے واپس آئیں اور خودکشی کر لی۔ تجہیز و تکفین کی ذمہ داری بھی والدہ نے نبھائی۔


والدہ کی خاموش خواہش

خالہ کی موت کے بعد والدہ کا چہرہ بجھ گیا۔ میری کامیابیوں پر وہ خوش نہ ہوتیں۔ ایک رات میں نے ان سے اداسی کی وجہ پوچھی۔ انہوں نے کہا، وہ چاہتی ہیں کہ میں وکیل بنوں۔

میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے سوال کیا، کیا تم جانتے ہو خالہ نے خودکشی کیوں کی؟ میں نے کہا نہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ وکیل نے فیس کے بدلے جسم کا تقاضا کیا تھا۔


وکیل بننے کا فیصلہ

اس واقعے کے بعد والدہ نے دل میں ارادہ کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ایسا وکیل بنائیں گی جو کبھی مظلوم کی عزت کا سودا نہ کرے۔ پہلی بار والدہ نے خواہش ظاہر کی تھی۔ میں نے ان کے قدم چومے اور وعدہ کیا کہ ایسا ہی وکیل بنوں گا۔

میں نے وکالت میں داخلہ لیا۔ سب لوگ حیران تھے لیکن والدہ بہت خوش تھیں۔ میں جاگ جاگ کر پڑھتا اور والدہ میرے ساتھ آیت الکرسی پڑھ کر پھونکتیں۔ میں نے وکالت میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔


ماں کا خواب اور میرا راستہ

والدہ خواب کی تعبیر نہ دیکھ سکیں۔ میں ہمیشہ سچ کے لیے لڑا۔ کبھی کسی ظالم کا ساتھ نہ دیا۔ ہر کامیابی پر والدہ کی قبر پر جاتا۔ لمبے عرصے تک وہ خواب میں نہ آئیں۔

پھر میں نے ایک یتیم لڑکی کا کیس لڑا۔ اس کا سامان اور حق مہر واپس دلوایا۔ بچوں کا ماہانہ خرچ بھی دلایا۔ والدہ کی قبر پر گیا۔ رات کو خواب میں وہ آئیں۔ مجھے سینے سے لگایا اور دعا کی۔


جج نہ بننے کی وجہ

اس دن لگا کہ زندگی کا مقصد پورا ہو گیا۔ میں جج بننے کے اہل تھا مگر میں نے وکیل بننے کو ترجیح دی۔ بطور جج مجھ پر دباؤ آ سکتا تھا لیکن بطور وکیل کوئی مجبور نہیں کر سکتا۔

میں حلال طریقے سے کماتا ہوں اور اسی میں مطمئن ہوں۔ جج صاحب کہتے ہیں پہلی بار احساس ہوا کہ عزت عہدے میں نہیں بلکہ اعمال میں ہوتی ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

اوپر تک سکرول کریں۔