سیز فائر لائن اور ایل او سی پر ازسرِنو بات چیت ضروری ہے: خواجہ آصف
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ شملہ معاہدہ اب غیر مؤثر ہوچکا ہے، اور پاکستان موجودہ حالات کو 1948 کی پوزیشن کی مانند سمجھتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کو اب سیز فائر لائن کے طور پر دیکھا جائے گا، اور اس کی حیثیت پر ازسرِنو بات چیت کرنا ناگزیر ہے۔
نجی ٹی وی چینل “سما نیوز” کے پروگرام “ندیم ملک لائیو” میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کی طرف سے جنگ کی شروعات نہیں کی جائے گی، تاہم اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو ہم پہلے سے کہیں زیادہ سخت اور مؤثر جواب دیں گے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ خطے کے دیگر ممالک کی جانب سے امن قائم رکھنے پر زور دیا جا رہا ہے، مگر بھارت کی طرف سے کی گئی یکطرفہ کارروائیاں، خصوصاً مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے جیسے اقدامات، امن کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے 2019 میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی، جو نہ صرف شملہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے بلکہ وادی کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنے کی کوشش بھی ہے۔
شملہ معاہدہ: ایک تاریخی جائزہ
شملہ معاہدہ 1971 کی پاک-بھارت جنگ کے بعد جولائی 1972 میں بھارت کے شہر شملہ میں طے پایا تھا۔ اس معاہدے پر پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے دستخط کیے تھے۔
معاہدے کی اہم شقیں درج ذیل تھیں:
شق نمبر | تفصیل |
---|---|
1 | دونوں ممالک اپنے تمام تنازعات کو پرامن اور دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے۔ |
2 | دونوں فریق کسی بھی معاملے میں یکطرفہ اقدام نہیں اٹھائیں گے۔ |
3 | 1971 کی جنگ کے بعد قائم کی گئی جنگ بندی لائن کو ’لائن آف کنٹرول‘ (ایل او سی) تسلیم کیا جائے گا۔ |
پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت نے شملہ معاہدے کی روح کو اس وقت پامال کیا جب اس نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خودمختار حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے بھارت میں ضم کر دیا۔ اس عمل سے نہ صرف مقامی آبادی کو سیاسی و سماجی نقصان پہنچا بلکہ یہ معاہدہ بھی عملاً ختم ہوگیا۔
وزیر دفاع نے کہا کہ خطے میں جنگ کے بادل بدستور منڈلا رہے ہیں، تاہم پاکستان کسی بھی صورت میں پہل نہیں کرے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر بھارت کی طرف سے جارحیت مسلط کی گئی تو پاکستان نہ صرف دفاع کرے گا بلکہ اس کا جواب انتہائی سخت اور فیصلہ کن ہوگا۔
یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پاک-بھارت تعلقات ایک بار پھر تناؤ کا شکار ہیں، اور کشمیر کا مسئلہ عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔