کہمس نے ابن بریدہ سے ، انہوں نے یحیی بن یعمر سے روایت کی ، انہوں نے کہا کہ سب سے پہلا شخص جس نے بصرہ میں تقدیر ( سے انکار ) کی بات کی،
معبد جہنی تھا میں ( یحیی ) اور حمید بن عبدالرحمن حمیری حج یا عمرے کے ارادے سے نکلے ، ہم نے ( آپس میں ) کہا : کاش ! رسول اللہ ﷺ کے
صحابہ میں سے کسی کے ساتھ ہماری ملاقات ہو جائے تو ہم ان سے تقدیر کے بارے میں ان ( آج کل کے ) لوگوں کی کہی ہوئی باتوں کے متعلق دریافت کر لیں۔
توفیق الہٰی سے ہمیں حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے ۔ میں اور میرے ساتھی نے ان کو درمیان میں لے لیا،
ایک ان کی دائیں طرف تھا اور دوسرا ان کی بائیں طرف ۔ مجھے اندازہ تھا کہ میرا ساتھی گفتگو ( کا معاملہ ) میرے ہی سپرد کرے گا ، چنانچہ میں نے عرض کی :
اے ابوعبدالرحمن ! ( یہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے ) واقعہ یہ ہے کہ ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے ہیں
جو قرآن مجید پڑھتے ہیں اور علم حاصل کرتے ہیں ( اور ان کے حالات بیان کیے ) ان لوگوں کا خیال ہے کہ تقدیر کچھ نہیں،
( ہر ) کام نئے سرے سے ہو رہا ہے ( پہلے اس بارے میں نہ کچھ طے ہے ، نہ اللہ کو اس کا علم ہے ۔ ) ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
جب تمہاری ان لوگوں سے ملاقات ہو تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں ۔ اس ( ذات ) کی قسم جس ( کے نام ) کے ساتھ عبداللہ بن عمر
حلف اٹھاتا ہے ! اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور وہ اسے خرچ ( بھی ) کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے اس کو قبول نہیں فرمائے گا
یہاں تک کہ وہ تقدیر پر ایمان لے آئے ، پھر کہا : مجھے میرے والد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بتایا : ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ
اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا ۔ اس کے کپڑے انتہائی سفید اور بال انتہائی سیاہ تھے ۔ اس پر سفر کا کوئی اثر دکھائی دیتا تھا نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا
حتیٰ کہ وہ آ کر نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے ، اور اپنے ہاتھ آپ ﷺ کی رانوں پر رکھ دیے ، اور کہا :
اے محمد ( ﷺ ) ! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں
اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں ، نماز کا اہتمام کرو ، زکاۃ ادا کرو ، رمضان کے روزے رکھو اور اگر اللہ کے گھر تک راستہ ( طے کرنے ) کی استطاعت ہو تو
اس کا حج کرو ۔‘‘ اس نے کہا : آپ نے سچ فرمایا ۔ ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ) کہا : ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ آپ سے پوچھتا ہے اور
( خود ہی ) آپ کی تصدیق کرتا ہے ۔ اس نے کہا : مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا :’’ یہ کہ تم اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں،
اس کے رسولوں اور آخری دن ( یوم قیامت ) پر ایمان رکھو اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لاؤ ۔‘‘ اس نے کہا : آپ نے درست فرمایا ۔ ( پھر ) اس نے کہا:
مجھے احسان کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا : یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے
تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔‘‘ اس نے کہا : تو مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا :’’ جس سے اس ( قیامت ) کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے،
وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۔‘‘ اس نے کہا : تو مجھے اس کی علامات بتا دیجیے ۔ آپ نے فرمایا :’’ ( علامات یہ ہیں کہ ) لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے
اور یہ کہ تم ننگے پاؤں ، ننگے بدن ، محتاج ، بکریاں چرانے والوں کو دیکھو کہ وہ اونچی سے اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں ۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : پھر وہ سائل چلا گیا ، میں کچھ دیر اسی عالم میں رہا ، پھر آپ ﷺ نے مجھ سے کہا :’’ اے عمر ! تمہیں معلوم ہے کہ پوچھنے والا کون تھا ؟ ‘‘
میں نے عرض کی : اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ جبریل علیہ السلام تھے ، تمہارے پاس آئے تھے ، تمہیں تمہارا دین سکھا رہے تھے ۔‘‘
Sahih Muslim#93
کتاب: ایمان کا بیان