شعبہ نے ابوجمرہ سے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور ( دوسرے ) لوگوں کے درمیان ترجمان تھا ، ان کے پاس ایک عورت آئی ، وہ ان سے گھڑے کی نبیذ کے بارے میں سوال کر رہی تھی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا : رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عبدالقیس کا وفد آیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا :’’ یہ کون سا وفد ہے ؟ ( یا فرمایا : یہ کون لوگ ہیں ؟ ) ‘‘ انہوں نے کہا : ربیعہ ( قبیلہ سے ہیں ۔ ) فرمایا :’’ اس قوم ( یا وفد ) کو خوش آمدید جو رسوا ہوئے نہ نادم ۔‘‘ ( ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ) کہا ، ان لوگوں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! ہم لوگ آپ کے پاس بہت دور سے آتے ہیں ، ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کافروں کا یہ قبیلہ ( حائل ) ہے ، ہم ( کسی ) حرمت والے مہینے کے سوا آپ کے پاس نہیں آ سکتے ، آپ ہمیں فیصلہ کن بات بتائیے جو ہم اپنے ( گھروں میں ) پیچھے والے لوگوں کو ( بھی ) بتائیں اور اس کے ذریعے سے ہم جنت میں داخل ہو جائیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بتایا : آپ نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار چیزوں سے روکا ۔ آپ نے ان کو اکیلے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا حکم دیا اور پوچھا :’’ جانتے ہو ، صرف اللہ پر ایمان لانا کیا ہے ؟ ‘‘ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں ۔ آپ نے فرمایا :’’ اس حقیقت کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کرنا ، زکاۃ دینا ، رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم مال غنیمت میں سے اس کا پانچواں حصہ ادا کرو ۔‘‘ اور انھیں خشک کدو سے بنائے ہوئے برتن ، سبز مٹکے اور تارکول ملے ہوئے برتن ( استعمال کرنے ) سے منع کیا ( شعبہ نے کہا : ) ابوجمرہ نے شاید «نقیر» ( لکڑی میں کھدائی کر کے بنایا ہوا برتن ) کہا یا شاید «مقیر» ( تارکول ملا ہوا برتن ) کہا ۔ اور آپ نے فرمایا :’’ ان کو خوب یاد رکھو اور اپنے پیچھے ( والوں کو ) بتا دو ۔‘‘
ابوبکر بن ابی شیبہ کی روایت میں ( «من ورائکم» کے بجائے ) «من وراءکم» ( ان کو ( بتاؤ ) جو تمہارے پیچھے ہیں ) کے الفاظ ہیں اور ان کی روایت میں «مقیر» کا ذکر نہیں ( بلکہ «نقیر» کا ہے ۔ )
Sahih Muslim 116
کتاب: ایمان کا بیان