یروشلم (بین الاقوامی خبر رساں ادارے): اسرائیل اور حماس کے درمیان تاریخی امن معاہدے کے بعد وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت شدید سیاسی دباؤ کا شکار ہو گئی ہے۔ اسرائیل کے اندر دائیں بازو کی اتحادی جماعتوں نے معاہدے کو ’’قومی مفادات کے منافی‘‘ قرار دیتے ہوئے حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دے دی ہے۔
ذرائع کے مطابق نیتن یاہو کی کابینہ کے اہم وزراء، خصوصاً نیشنل سیکیورٹی کے وزیر اتمار بن گویر اور فائنانس کے وزیر بیزلیل سمیتریچ نے معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’حماس کے ساتھ جنگ بندی دہشتگردی کے سامنے جھکنے کے مترادف ہے۔‘‘ ان کا مطالبہ ہے کہ معاہدے پر دستخط واپس لیے جائیں یا نئے انتخابات کا اعلان کیا جائے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اپوزیشن جماعت ’’یئیر لیپڈ‘‘ کی قیادت میں ایک متحدہ بلاک نیتن یاہو کے استعفے کا مطالبہ کر رہا ہے، جبکہ تل ابیب سمیت کئی شہروں میں عوامی مظاہرے بھی شروع ہو گئے ہیں جن میں مظاہرین نے حکومت کو ’’غزہ میں ناکامی‘‘ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
ادھر مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر اتحادی جماعتیں واقعی حکومت سے علیحدہ ہوئیں تو نیتن یاہو کی مخلوط حکومت اکثریت کھو سکتی ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل میں نئے انتخابات کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔
بین الاقوامی سطح پر نیتن یاہو کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔ بعض مغربی رہنما اس معاہدے کو امن کی طرف مثبت قدم قرار دے رہے ہیں، جبکہ اسرائیلی قدامت پسند حلقے اسے ’’غداری‘‘ قرار دے رہے ہیں۔