ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

امی ام حبیبہ کا نام رملہ بنت ابو سفیان تھا. وہ بنو امیہ سے تعلق رکھتی تھیں. والد کا نام ابو سفیان بن حرب اور والدہ کا نام ام صفیہ بنت ابی العاص تھا. امی جان سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سوتیلی بہن تھیں. وہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پھوپھی زاد بہن بھی تھیں. امی جان اپنے زمانے کی عرب کی حسین ترین خواتین میں شمار کی جاتی تھیں.

امی جان کی پہلی شادی

امی جان کی پہلی شادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی سیدہ امیمہ بنت عبد المطلب کے بیٹے اور ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالٰی عنہا کے بھائی سیدنا عبید اللہ بن جحش سے ہوئی. عبید اللہ بن جحش نے دورِ جاہلیت میں بھی کبھی بت پرستی نہیں کی. وہ ہمیشہ سے دینِ ابراہیمی پر تھے. حضرت عبید اللہ بن جحش سابقون و اولون میں سے تھے.

جب نبوت کا آغاز ہوا، تو عبید اللہ بن جحش اپنی بیوی رملہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور اسلام قبول کر لیا. جب کفار نے مسلمانوں کا مکہ میں رہنا دوبھر کردیا تو جن مسلمانوں نے حبشہ ہجرت کی، ان میں یہ نوجوان جوڑا بھی شامل تھا. حبشہ میں اللہ نے اس جوڑے کو بیٹی سے نوازا، جس کا نام حبیبہ رکھا گیا. اس وجہ سے امی رملہ، ام حبیبہ کے نام سے مشہور ہو گئیں.

امی حبیبہ کا تنہا سفر

کچھ عرصے بعد عبید اللہ جحش کا انتقال ہوگیا اور امی حبشہ میں تنہا رہ گئیں. اس وقت بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت رقیہ، امی ام سلمیٰ، اسماء بنت عمیس جیسی عظیم المرتبت خواتین نے ان کی ہمت بندھائی. امی جان اپنا زیادہ تر وقت عبادت میں گزارتیں اور اللہ سے مدد کی دعا کرتی رہتیں.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو امی ام حبیبہ کے حالات کا علم ہوا تو سرکار دو عالم نے حضرت عمرو بن امیہ کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے دربار میں ایک خط دے کر روانہ کیا. اس مراسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امی ام حبیبہ کو نکاح کا پیغام بھجوایا. نجاشی نے اپنی کنیز ابرہہ کے ہاتھوں امی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا.

پیغام سنتے ہی امی نے اپنے ہاتھوں سے کنگن اور انگوٹھیاں اتار کر اس کنیز کو انعام دے دیں. جب امی کی رضامندی حاصل ہوگئی تو نجاشی نے اپنے محل میں نکاح کا انتظام کیا. حبشہ میں ہجرت کرنے والے تمام مسلمانوں کو مدعو کیا گیا. نجاشی نے ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی اللہ عنہا کا نکاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چار ہزار درہم حق مہر پر کرایا.

خیبر کی فتح اور امی حبیبہ کی واپسی

نکاح کے کچھ عرصے بعد امی حبشہ میں رہیں. ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ امی جان جس دن حضرت جعفر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ حبشہ سے سفر کر کے مدینہ پہنچی، وہ دن بہت مبارک تھا. اس دن خیبر فتح ہوا تھا. اللہ نے اس دن سرکار دو عالم پر خوشیوں کی برسات کی تھی. خیبر کی فتح، دودھ شریک بھائی جعفر الطیار سے ملاقات، اور امی ام حبیبہ کی رخصتی نے مدینہ میں خوشی کا ماحول پیدا کیا.

امی جان کی زندگی اور اخلاق

امی جان کی زندگی یہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے گھر میں بہترین خواتین جمع کی تھیں. ان کی زندگی کے کئی واقعات آج بھی ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہیں. ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ جب امی کے والد ابو سفیان رضی اللہ تعالٰی عنہ (جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے مدینہ آئے، صلح حدیبیہ ٹوٹ چکی تھی. ابو سفیان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی توسیع کی درخواست کی، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا. ابو سفیان اپنی بیٹی سے ملنے پہنچے. ان کا خیال تھا کہ وہ اپنی بیٹی سے کہیں گے کہ اپنے شوہر سے سفارش کر دے. دونوں باپ بیٹی چودہ سال بعد ملے تھے.

جب ابو سفیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھنے لگے، تو امی جان نے بستر سمیٹ دیا اور کہا کہ یہ اللہ کے رسول کا بچھونا ہے، اور آپ مسلمان نہیں ہیں، اس لیے آپ اس پر نہ بیٹھیں. ابو سفیان کہتے ہیں کہ میں جو بات کرنے آیا تھا، وہ مجھ سے ہوئی ہی نہیں. جو مجھے اپنے شوہر کے بستر پر نہیں بیٹھنے دیتی، وہ میری سفارش کیا کرے گی!

ابو سفیان کی وفات اور امی جان کا ردعمل

دوسرا واقعہ یہ ہے کہ جب ابو سفیان کا انتقال ہوا تو تیسرے دن امی جان نے خوشبو لگائی. انہوں نے فرمایا کہ اس وقت میرا خوشبو لگانے کا دل نہیں ہے لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ سوگ صرف تین دن کا ہوتا ہے، سوائے بیوی کے، جس کی عدت چار ماہ اور دس دن ہوتی ہے.

امی جان کی اخلاقی عظمت

میں سوچتی ہوں کہ میرے رب نے خانوادہ رسول میں کیسے انمول ہیرے جمع کیے تھے. انہیں کس قدر شعور تھا کہ وہ امت کی مائیں ہیں اور انہی کی تربیت کرنی ہے. آج ساڑھے چودہ سو سال بعد بھی، یہ باتیں کتنی relevant ہیں.

امی جان احادیث مروی کرنے میں امہات المؤمنین میں تیسرے نمبر پر ہیں. سب سے زیادہ احادیث امی عائشہ کی ہیں، دوسرے نمبر پر امی ام سلمیٰ ہیں اور تیسرے نمبر پر امی ام حبیبہ ہیں. ان سے مروی ایک حدیث میری پسندیدہ ہے. امی جان فرماتی ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جو شخص 12 رکعات نفل روزانہ پڑھے گا، اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا. امی فرماتی ہیں کہ میں نے اس وقت سے لے کر اپنی وفات تک کبھی بھی ان کا ناغہ نہیں کیا.

آخری وقت اور وفات

امہات المؤمنین کے واقعات ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ وہ اللہ کی چنیدہ خواتین تھیں. ان کی زندگی میں بھی وہ سب باتیں اور ردعمل تھے جو ہم عام عورتوں میں دیکھتے ہیں. سوکنوں کی نوک جھونک کے باوجود اخلاقی بلندیوں کے وہ معیار جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا نتیجہ تھے. امی ام حبیبہ جب بیمار ہوئیں تو وفات سے چند دن پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور کہا: ’’میرے اور آپ کے درمیان سوکنوں والے تعلقات تھے، اگر کوئی غلطی مجھ سے ہوئی ہو تو اللہ کے لیے مجھے معاف کر دیجئے۔‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’میں نے معاف کیا‘‘ اور پھر ان کے لیے دعا مانگی. سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’آپ نے مجھے خوش کیا، اللہ آپ کو خوش رکھے۔‘‘ اس کے بعد یہی پیغام حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو بھی بھیجا. اس قدر صاف دلی اور خلوص کہ دنیا کے سب سے مشکل ترین رشتہ میں بھی کبھی جھوٹ یا بہتان نہیں باندھا.

امی نے چوالیس ہجری میں ستتر سال کی عمر میں وفات پائی. آپ جنت البقیع میں آرام فرما رہی ہیں.

ایک تبصرہ چھوڑیں

اوپر تک سکرول کریں۔