4:41:04 AM

کیا ہم واقعی ایک اذیت پسند قوم بن چکے ہی

کیا ہم واقعی ایک اذیت پسند قوم بن چکے ہی

چائے کی چُسکی اور ایک غیر متوقع مہمان

ایک صاحب لکھتے ہیں کہ وہ آفس آتے ہی چائے کا کپ ضرور پیتے ہیں۔
ایک دن ابھی پہلا گھونٹ ہی بھرا تھا کہ اطلاع ملی: کوئی ملنے آیا ہے۔
میں نے کہا، بھجوا دیجیے۔


دلچسپ حلیہ اور انوکھا تعارف

دروازہ کھلا تو ایک شخص داخل ہوا۔
شلوار قمیض پہنے، گریبان کے بٹن کھلے، گلے میں ٹیلکم پاؤڈر،
ہاتھوں میں انگوٹھیاں، کانوں میں رنگ اور نیم کالا رنگ۔
سلام کر کے بیٹھ گیا۔

میں نے آنے کا مقصد پوچھا۔
اس نے اِدھر اُدھر دیکھا اور کہا، ’’میں بھی ایک مراثی ہوں‘‘۔
میں بوکھلا گیا۔


ہنسانے والا یا مراثی؟

وہ آگے جھک کر بولا، ’’سنا ہے آپ بھی لوگوں کو ہنساتے ہیں؟‘‘
میں نے فوراً کہا، ’’ہاں، لیکن میں مراثی نہیں ہوں‘‘۔
وہ بولا، ’’اچھی بات ہے، میں نے بھی کبھی اپنی حقیقت کسی کو نہیں بتائی‘‘۔

اس کا انداز بدتمیزی سے خالی نہ تھا۔
میں غصے سے بولا، ’’یہ کوئی تھیٹر نہیں جہاں مراثی بھرتی ہوں‘‘۔
وہ بولا، ’’یہاں نہیں تو کہیں اور کام دلوا دیں‘‘۔


الٹا چیلنج

میں نے اچانک آفس بوائے کو اس کے لیے چائے لانے کو کہا۔
پھر خود اس کے پاس والی کرسی پر آ بیٹھا۔
اس کی آنکھوں میں الجھن تھی۔
میں نے کہا، ’’تمہیں نوکری مل سکتی ہے، اگر مجھے ہنسا دو‘‘۔

وہ حیرت سے میرا منہ دیکھتا رہا۔
پھر نفی میں سر ہلا دیا۔


ہنسی کا فقدان

میں نے وجہ پوچھی۔
اس نے کہا، ’’لوگ اب ہنسنا چھوڑ چکے ہیں‘‘۔

میں نے قہقہہ لگایا۔
’’نہیں، لوگ آج بھی ہنستے ہیں، مزاحیہ ڈرامے دیکھتے ہیں‘‘۔
اس نے انگوٹھی بدلی، شیو پر خارش کی، اور بولا:
’’دنیا ہنستی نہیں، دوسروں کی ذلت پر خوش ہوتی ہے‘‘۔


لومڑ اور جمعدار

اس نے سگریٹ سلگایا، ایک گہرا کش لیا، اور کہا:
’’آپ کا منہ فلسطین کے لومڑ جیسا ہے‘‘۔

میں چونک گیا۔
غصے سے کرسی پر سے پھسل گیا۔

پھر اس نے کہا، ’’آپ کا دوست شہزاد بینکاک کے جمعدار جیسا ہے‘‘۔
میں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گیا۔


تلخ حقیقت کا ادراک

میں نے کہا، ’’شرم کرو، وہ میرا دوست ہے‘‘۔
وہ سنجیدگی سے بولا، ’’ایسی ہنسی آپ کو اپنے اوپر کیوں نہیں آئی؟‘‘

میں چونک گیا۔
بات دل میں اتری۔


ہنسی، لیکن کس قیمت پر؟

ہم صرف تب ہنستے ہیں جب کسی اور کی تذلیل ہو۔
کسی کے گرنے پر، بس نکلنے پر، یا کتا پیچھے لگنے پر۔
اگر یہی ہمارے ساتھ ہو، تو غصے سے بھر جاتے ہیں۔


اذیت پسند معاشرہ؟

ہمیں اپنے سکھ سے خوشی نہیں، دوسروں کے دکھ سے سکون ملتا ہے۔
کیا واقعی ہم ایک اذیت پسند قوم بن چکے ہیں؟

ایک تبصرہ چھوڑیں