قلوپطرہ مصر کی ایک حسین و جمیل ملکہ
تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے جس کے بارے میں لوگوں کی اکثریت بس اتنا جانتی ہے کہ وہ مصر کی ایک حسین و جمیل ملکہ تھی ۔ جبکہ قدیم مصر ی تاریخ میں قلوپطرہ نام کی سات ملکائیں ہو گزری ہیں ۔ سب سے زیادہ شہرت قلوپطرہ ہفتم کے حصے میں آئی، بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ قلوپطرہ کا نام آنے سے مراد یہی قلوپطرہ ہفتم ہوتی ہے ، بے پناہ شہرت کے باعث اسے فقط قلوپطرہ ہی کہا جاتا ہے ۔ شہرت کی نمایاں وجہ اس کا بے پناہ حسن اور شخصیت تھی۔
قلوپطرہ 69 قبل مسیح میں مصر کے حکمران بطلیموس12 کے گھر میں پیدا ہوئی تھیں۔ جب والد کا انتقال ہوا تو اصولی طور پر اقتدار 18 سالہ قلوپطرہ کے حصے آنا چاہیے تھا، مگر لوگوں میں عورت کی تخت نشینی کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا اس لیے طے یہ پایا کہ اسے چھوٹے بھائی کے ساتھ مشترکہ حکمران بنا دیا گیا۔ لیکن جلد ہی بادشاہی دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی جس میں قلوپطرہ کا دھڑا کمزور نکلا اور قلوپطرہ کو بھائی کی فوجوں سے جان بچا کر مصر سے بھاگ کر روم جانا اور رومن بادشاہ جولیئس سیزر سے مدد حاصل کرنا پڑ گیا۔ سیزر مصری ملکہ کی فریاد سے کم اور اداؤں کا اسیر زیادہ ہوا اور اس نے مصر پر چڑھائی کر دی اور قلوپطرہ کو دوبارہ تخت پر بٹھا دیا جہاں وہ طویل عرصہ براجمان رہیں۔
انہی دنوں روم میں شہنشاہ پومپئی اور جولئیس سیزر میں اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو چکی تھی۔ پومپئی شکست کے بعد مصر میں پناہ کی تلاش میں داخل ہوا لیکن جولیئس سیزر کے حامیوں کے ہاتھوں مارا گیا، اس طرح سیزر اور قلوپطرہ نے اپنے ”دشمنوں‘‘ کا صفایا کر دیا جن میں قلوپطرہ کا چھوٹا بھائی اور چھوٹی بہن بھی شامل تھے ۔ سیزر کی عدم موجودگی میں اس کا قابل اعتماد نائب انتھونی روم کے معاملات کی نگرانی کرتا رہا۔ اب سیزر اور ملکہ قلو پطرہ دشمنوں کے خوف سے بے نیاز زندگی گزارنے لگے ۔ اسی دوران قلو پطرہ کے بطن سے سیزر کا ایک بیٹا سیزارین پیدا ہوا۔ بیٹے کی پیدائش کے فوراََ بعد سیزر کو واپس روم جانا پڑا۔ اس کے بعد سیزر کی فتوحات کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔
جشن فتوحات کے موقع پر قلوپطرہ بھی روم کی ملکہ بننے کا خواب دیکھتے روم آن پہنچی لیکن پومپئی کے حامیوں نے پھر سر اٹھا لیا اور سیزر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اب قلوپطرہ نے اپنے بیٹے سیزارین کو تخت پر بٹھانے کے خواب دیکھنے شروع کر دئیے جو انتھونی کے تعاون کے بغیر ناممکن تھے ۔ لہٰذا اس نے انتھونی کو اپنے جال میں پھنسا لیا۔ انتھونی نے اسے مصر واپس لوٹ جانے اور مناسب وقت کے انتظار کا مشورہ دیا ۔
حالات پر انتھونی کی گرفت دن بدن کمزور ہوتی چلی گئی ، آکٹوین پہلے ہی موقع کی تلاش میں تھا اس نے روم پر قبضہ کر کے انتھونی کو فرار ہونے پر مجبور کر دیا اور یوں انتھونی بھی قلوپطرہ کے پاس مصر پہنچ گیا۔دونوں میں شادی ہو گئی۔ 40 قبل مسیح میں انتھونی واپس روم آ گیا۔ واپسی کے چھ ماہ بعد قلوپطرہ اس کے دو جڑواں بچوں کی ماں بن گئی۔
انتھونی نے شام میں قدم جمانے کی کوششیں کی لیکن اسے مسلسل ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا ۔چنانچہ نامراد مصر واپس آ گیا ۔آکٹوین نے مصر پر چڑھائی کر کے انتھونی کا قصہ ہمیشہ کے لئے صاف کر دیا اور قلوپطرہ کو نظربند کر دیا ۔ قلوپطرہ کو اپنا مستقبل تاریک اور زندگی خطرے میں نظر آنے لگ گئی۔ وہ جان چکی تھی کہ اگر وہ زندہ رہ گئی تو آکٹوین اسے اور اس کے بچوں کو مصر کی شاہراہوں پر ذلیل کرے گا۔
قلوپطرہ نے آکٹوین سے انتھونی کی قبر پر جانے کی اجازت مانگی ۔انتھونی کی قبر پر پھول چڑھائے اور واپس آ کر صوفے پر لیٹ گئی ۔شام کو محل میں ہنگامہ بپا ہو گیا ۔پہرہ داروں نے بتایا کہ آج صبح ایک دہقان انجیر کی ایک ٹوکری لے کر آیا تھا ۔ معلوم ہوا کہ دراصل یہ سانپوں کا ٹوکرا تھا جو ملکہ نے خود منگوایا تھا ۔ ملکہ قلوپطرہ نے سانپ سے خود کو ڈسوا لیا تھا ۔ تاریخ کی کتابیں بتاتی ہیں کہ زہرنے فوری اثر کیا ، دیکھتے ہی دیکھتے ملکہ نے اپنی زندگی اپنے ہی ہاتھوں ختم کر ڈالی۔ ”اس کی موت کے بارے میں مشہور تھا کہ سانپ کے کاٹے سے ہوئی تھی لیکن جرمنی کے ایک مشہور تاریخ دان پروفیسر کرسٹو فر شیفر نے اس مفروضے کو رد کر دیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس نے خود کشی کی غرض سے ایک محلول پی لیا تھا۔
کلوپطرا 17 سال کی عمر میں تخت پر بیٹھی اور 39 سال کی عمر میں انتقال کر گئی۔ وہ 9 زبانیں بولتی تھی ۔ وہ قدیم مصر کی زبان جانتی تھی اور ہیروگلیفکس پڑھنا سیکھ چکی تھی، جو اس کے خاندان میں ایک منفرد واقعہ ہے۔ اس کے علاوہ وہ یونانی اور پارتھیوں، عبرانیوں، میڈیس، ٹروگلوڈائٹس، شامی، حبشیوں اور عربوں کی زبانیں جانتی تھیں۔
My Latest Posts
November 3, 2024
No Comments
November 3, 2024
No Comments
November 3, 2024
No Comments
November 3, 2024
No Comments
September 20, 2024
No Comments
September 19, 2024
No Comments
September 19, 2024
No Comments
September 19, 2024
No Comments
September 19, 2024
No Comments
- Posted by Admin
- No Comments