بھیڑ میں ایک اجنبی کا سامنا اچھا لگا
سب سے چھپ کر وہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا
سُرمئی آنکھوں کے نیچے پھول سے کھلنے لگے
کہتے کہتے کچھ کسی کا سوچنا اچھا لگا
بات تو کچھ بھی نہیں تھی لیکن اس کا ایک دم
ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا اچھا لگا
چائے میں چینی ملانا اُس گھڑی بھائیہ بہت
زیرِ لب وہ مسکراتا، شکریہ اچھا لگا
دل میں کتنے عہد باندھے تھے بھولانے کے اُس کو
وہ ملا تو سب ارادے توڑنا اچھا لگا
بے ارادہ لمس کی وہ سنسنی پیاری لگی
کم توجہ آنکھ کا وہ دیکھنا اچھا لگا
نیم شب کی خاموشی میں بھیگتی سڑکوں پہ کل
تیری یادوں کے جلو میں گھومنا اچھا لگا
اس عدوِ جان کو “امجد” میں برا کیسے کہوں
جب بھی آیا سامنے، وہ بےوفا اچھا لگا