یہ اور بات ہے، تجھ سے گلا نہیں کرتے
جو زخم تو نے دیے ہیں، بھرا نہیں کرتے
ہزار جال لیے گھومتی پھرتی دنیا
تیرے اسیر کسی کے ہوا نہیں کرتے
یہ آنکھوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں
کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے
وفا کی آتش، سخن کا تپاک دو ان کو
دلوں کے چاک رفُو سے سِلا نہیں کرتے
جہاں ہو پیار، غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں
سو بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے
ہمیں ہماری اناں تباہ کر دیں گی
مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے
جو ہم پہ گزری ہے جاناں، وہ تم پہ بھی گزرے
جو دل بھی چاہے تو ایسی دعا نہیں کرتے
ہر ایک دعا کے مقدر میں کب حضوری ہے
تمام گھنچے تو “امجد” کھلا نہیں کرتے