کہاں آ کے رکنے تھے راستے، کہاں موڑ تھا، اسے بھول جا
وہ جو مل گیا، اسے یاد رکھ، جو نہیں ملا، اسے بھول جا

وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئی ہیں
دلِ بے خبر میری بات سن، اسے بھول جا، اسے بھول جا

میں تو گم تھا تیرے ہی دھیان میں، تیری آس تیرے گمان میں
ہوا کہہ گئی میرے کان میں، میرے ساتھ آ، اسے بھول جا

کسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم، تیرے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بھلا دیا، تو بھی مسکرا، اسے بھول جا

کہیں چاکِ جان کا رفو نہیں، کسی آستین پہ لہو نہیں
کہ شہیدِ راہِ ملال کا نہیں خون بہا، اسے بھول جا

کیوں اٹاہوا ہے غبار میں، غمِ زندگی کے فشار میں
وہ جو درد تھا تیرے بخت میں، سو وہ ہو گیا، اسے بھول جا

تجھے چاند بن کے ملا تھا، جو تیرے ساحلوں پہ کھلا تھا
وہ تھا ایک دریا وصال کا، سو اتر گیا، اسے بھول جا

Leave a Comment

Scroll to Top