تین بے گناہ افراد کو سزائے موت
کہتے ہیں کہ کسی جگہ پر بادشاہ نے تین بے گناہ افراد کو سزائے موت دی
بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں ان تینوں کو پھانسی گھاٹ پر لے جایا گیا جہاں ایک بہت بڑا لکڑی کا تختہ تھا
جس کے ساتھ پتھروں سے بنا ایک مینار اور مینار پر ایک بہت بڑا بھاری پتھر مضبوط رسے سے بندھا ہوا ایک چرخے پر جھول رہا تھا
رسے کو ایک طرف سے کھینچ کر جب چھوڑا جاتا تھا تو دوسری طرف بندھا ہوا پتھر زور سے نیچے گرتا اور نیچے آنے والی کسی بھی چیز کو کچل کر رکھ دیتا تھا
تین سزایافتہ افراد
چنانچہ ان تینوں کو اس موت کے تختے کے ساتھ کھڑا کیا گیا
ان میں سے ایک:
■ ایک عالم
■ ایک وکیل
■ اور ایک فلسفی
تھا
1. عالم کا امتحان اور نجات
سب سے پہلے عالم کو اس تختے پر عین پتھر گرنے کے مقام پر لٹایا گیا
اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو عالم کہنے لگا:
“میرا خدا پر پختہ یقین ہے، وہی موت دے گا اور زندگی بخشے گا، بس اس کے سوا کچھ نہیں کہنا”
اس کے بعد رسے کو جیسے ہی کھولا تو پتھر پوری قوت سے نیچے آیا اور عالم کے سر کے اوپر آ کر رک گیا
یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے
عالم کے پختہ یقین کی وجہ سے اس کی جان بچ گئی اور رسہ واپس کھینچ لیا گیا
2. وکیل کا انصاف پر یقین
اس کے بعد وکیل کی باری تھی
اسے بھی تختہ دار پر لٹا کر جب آخری خواہش پوچھی گئی تو وہ کہنے لگا:
“میں حق اور سچ کا وکیل ہوں اور جیت ہمیشہ انصاف کی ہوتی ہے۔ یہاں بھی انصاف ہوگا”
پھر رسے کو دوبارہ کھولا گیا، پتھر پوری قوت سے نیچے آیا اور اس بار بھی وکیل کے سر پر پہنچ کر رک گیا
پھانسی دینے والے اس انصاف سے حیران رہ گئے اور وکیل کی جان بھی بچ گئی
3. فلسفی کی عقل کا انجام
اب فلسفی کی باری تھی
اسے جب تختے پر لٹا کر آخری خواہش کا پوچھا گیا تو وہ کہنے لگا:
“عالم کو تو نہ ہی خدا نے بچایا ہے اور نہ ہی وکیل کو اس کے انصاف نے، دراصل میں نے غور سے دیکھا ہے کہ رسے پر ایک جگہ گانٹھ ہے جو چرخی کے اوپر گھومنے میں رکاوٹ کی وجہ بنتی ہے جس سے رسہ پورا کھلتا نہیں اور پتھر پورا نیچے نہیں گرتا”
فلسفی کی بات سن کر سب نے رسے کو بغور دیکھا، تو وہاں واقعی گانٹھ تھی
انہوں نے جب وہ گانٹھ کھول کر رسہ آزاد کیا تو پتھر پوری قوت سے نیچے گرا اور فلسفی کا ذہین سر کچل کر رکھ دیا
حکایت کا نتیجہ
“بعض اوقات بہت کچھ جانتے ہوئے بھی منہ بند رکھنا حکمت میں شمار ہوتا ہے…”