پی ٹی آئی کی تحریک کے کامیابی کے امکانات اور موجودہ سیاسی صورتحال
پاکستان کی سیاسی صورتحال ایک پیچیدہ دور سے گزر رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ اس کے باوجود، پارٹی نے اپنی عوامی حمایت برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور 9 مئی کے واقعات کے بعد سے پی ٹی آئی مشکل میں ہے۔ تاہم، حالیہ دنوں میں پارٹی نے اپنی احتجاجی تحریک کو دوبارہ فعال کیا ہے۔
پی ٹی آئی اپنی موجودہ احتجاجی تحریک کو ملک گیر سطح پر لے جانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ تحریک بنیادی طور پر پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان کی رہائی اور فروری 2024 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ہے۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے حال ہی میں لاہور کا دورہ کیا۔ اس دورے کا مقصد ملک گیر احتجاجی مہم کا باقاعدہ آغاز کرنا تھا۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ 5 اگست تک احتجاجی مہم اپنے عروج پر پہنچ جائے گی۔ یہ تاریخ عمران خان کی گرفتاری کے دو سال پورے ہونے کی نشان دہی کرتی ہے۔
پی ٹی آئی کی قیادت کا دعویٰ ہے کہ پنجاب حکومت فسطائیت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس کے باوجود، وہ اپنی احتجاجی مہم جاری رکھیں گے۔ پارٹی نے کارکنوں کو متحرک کیا ہے۔ پنجاب میں بھی ورکرز کو ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ پی ٹی آئی 9 مئی جیسے واقعات کو دہرانے سے گریز کرے گی۔ پارٹی نے ماضی کے تجربات سے سیکھا ہے۔ (ذرائع: انڈین ایکسپریس، ڈان، عرب نیوز)۔
کامیابی کے امکانات: چیلنجز اور مواقع
پی ٹی آئی کی تحریک کی کامیابی کے امکانات پر مختلف آراء ہیں۔ ایک طرف، پارٹی کے پاس عوامی حمایت کا ایک مضبوط حلقہ موجود ہے۔ وہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا مؤثر استعمال کرتے ہیں۔ یہ انہیں اپنے حامیوں تک پہنچنے میں مدد دیتا ہے۔ دوسری طرف، پارٹی کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ قیادت کی بڑی تعداد جیل میں ہے۔ پنجاب میں پارٹی کی زمینی سطح پر تنظیم کمزور ہے۔ وہاں اس میں تقسیم بھی پائی جاتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک پی ٹی آئی اپنا اندرونی ڈھانچہ مضبوط نہیں کرتی، کامیابی مشکل ہو سکتی ہے۔
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا عوام اس حبس زدہ موسم میں سڑکوں پر نکلنے کے لیے تیار ہیں؟ حکومتی سختی بھی ایک رکاوٹ ہے۔ اس صورتحال میں عوام کا سڑکوں پر آنا تحریک کی کامیابی کا فیصلہ کرے گا۔ موجودہ شواہد کے مطابق، عوام ابھی بڑے پیمانے پر سڑکوں پر آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ (ذرائع: عرب نیوز، گیلپ پاکستان سروے)
تاہم، پی ٹی آئی نے سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت بننے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ یہ پارلیمنٹ کے اندر پارٹی کی پوزیشن کو مضبوط کر سکتا ہے۔ پارٹی اسمبلیوں میں بھی حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ یہ حکمت عملی قانونی اور آئینی دائرہ کار میں رہ کر احتجاج کرنے کا حصہ ہے۔ (ذرائع: ڈان، ویکیپیڈیا)
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں عدم استحکام غالب ہے۔ ملک کو معاشی اور آئینی بحرانوں کا سامنا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار سرمایہ کاری سے ہچکچا رہے ہیں۔ سیاسی polarisation گہرا ہو گیا ہے۔ ریاست کے ادارے شکایات کے حل کے لیے پرامن طریقے فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ (ذرائع: ایشیا فورم، اے ڈی بی رپورٹ)
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کا فقدان ہے۔ پی ٹی آئی موجودہ حکومت کو ناجائز سمجھتی ہے۔ اسے “چوری شدہ مینڈیٹ” سے تشکیل دیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے، پی ٹی آئی اسے اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دینا چاہتی۔
ملکی سلامتی کی صورتحال بھی نازک ہے۔ دہشت گردی اور فرقہ واریت جیسے مسائل موجود ہیں۔ معیشت کمزور ہے۔ مہنگائی بہت زیادہ ہے۔ قرضوں کا بوجھ بھی بڑھا ہے۔ ان حالات میں سیاسی استحکام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تاہم، موجودہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔ سیاسی جماعتیں اور ریاست کے ادارے کشمکش میں ہیں۔ (ذرائع: ڈان، آئی ایم ایف رپورٹ)
پی ٹی آئی کی تحریک کے مستقبل کا انحصار کئی عوامل پر ہے۔ ان میں پارٹی کی اندرونی تنظیم، عوامی ردعمل، اور اسٹیبلشمنٹ کا رویہ شامل ہیں۔ اگرچہ پی ٹی آئی عدالتی اور پارلیمانی محاذ پر سرگرم ہے، اس کے باوجود سڑکوں پر طاقت دکھانا ایک بڑا چیلنج ہے۔
مجموعی طور پر، پاکستان کی سیاسی صورتحال غیر یقینی کا شکار ہے۔ سیاسی استحکام کے بغیر، معاشی اور سماجی چیلنجز کو حل کرنا مشکل ہو گا۔ تمام فریقین کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ انہیں ملک کو مزید انتشار سے بچانا ہوگا۔ (ذرائع: مختلف تجزیہ کاروں کے تبصرے، جیسے کہ عرب نیوز، ڈان)