پاکستان میں 27 یوٹیوب چینلز بلاک کرنے کا حکم جاری

browse cricket leagues

  • پی ایس ایل
  • آئی پی ایل
  • بی پی ایل
  • بی پی ایل
  • سی پی ایل
  • ایل پی ایل

browse sports

  • کرکٹ
  • فٹ بال
  • ہاکی
  • ٹینس
  • ٹیبل ٹینس
  • سکواش
  • باکسنگ
  • والی بال
  • بیڈمنٹن

Browse Pakistan News

  • لاہور
  • کراچی
  • اسلام آباد
  • ملتان
  • فیصل آباد
  • راولپنڈی
  • گجرانوالہ
  • پشاور
  • حیدر آباد

پاکستان میں 27 یوٹیوب چینلز بلاک کرنے کا حکم جاری

اسلام آباد، پاکستان – پاکستان میں 27 یوٹیوب چینلز کو بند کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق، یہ چینلز ملک مخالف پروپیگنڈا پھیلانے، ریاست کے اداروں کے خلاف مواد نشر کرنے، اور نفرت انگیزی کو فروغ دینے میں ملوث تھے۔ اس اقدام کا مقصد ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر غلط معلومات اور ریاست مخالف مواد کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے وفاقی حکومت کی ہدایات پر یہ کارروائی کی ہے۔ دی نیوز اور ڈان نیوز کی رپورٹس کے مطابق، ان چینلز پر نشر ہونے والا مواد قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جا رہا تھا۔ لہٰذا، فوری طور پر ان پر پابندی عائد کر دی گئی۔ پی ٹی اے نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ آئین و قانون کے تحت ایسا مواد نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جو ملک میں افراتفری پیدا کرے یا اداروں کے خلاف نفرت کو ہوا دے۔ اس فیصلے سے سائبر اسپیس میں مواد کی نگرانی کے حوالے سے حکومتی عزم کی عکاسی ہوتی ہے۔

ڈیجیٹل مواد کی نگرانی اور اظہار رائے کی آزادی کا توازن

حالیہ عرصے میں پاکستان میں ڈیجیٹل مواد کی نگرانی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، حکومت ایسے پلیٹ فارمز پر پابندی لگا رہی ہے جو اس کے خیال میں قومی مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ اے آر وائی نیوز اور جیو نیوز کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ اقدام ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ‘غیر قانونی’ مواد کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کا حصہ ہے۔ تاہم، اس پر اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے بھی بحث جاری ہے۔

سول سوسائٹی کے کچھ حلقوں نے ایسی پابندیوں پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق، اس سے صارفین کو معلومات تک رسائی محدود ہو سکتی ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ پابندیاں صرف اس مواد پر عائد کی جا رہی ہیں جو تشدد، نفرت یا بغاوت پر اکساتا ہے۔ یہ عمل ملک کی سلامتی اور استحکام کے لیے ضروری ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ آئین اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے، لیکن، اس پر بھی کچھ حدود و قیود لاگو ہوتی ہیں۔

نوٹ: یہ خبر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے حکم اور مختلف مقامی خبر رساں اداروں (دی نیوز، ڈان، اے آر وائی نیوز، جیو نیوز) سے حاصل کردہ معلومات پر مبنی ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

اوپر تک سکرول کریں۔