اسلام آباد، پاکستان – پاکستان نے ایران پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اس کے علاوہ، وزیراعظم پاکستان نے اس کارروائی کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ نہ صرف یہ، بلکہ اسے خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ بھی بتایا ہے۔ یہ مذمت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب مشرق وسطیٰ میں پہلے ہی کشیدگی عروج پر ہے۔ لہٰذا، کسی بھی نئی فوجی کارروائی کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
وزیراعظم نے تمام فریقین پر تحمل سے کام لینے پر زور دیا۔ انہوں نے کشیدگی میں کمی لانے کی بھی اپیل کی۔ وزارت خارجہ کے ایک ترجمان کے مطابق، پاکستان ہمیشہ خودمختاری کے احترام کی پالیسی پر گامزن رہا ہے۔ دراصل، وہ کسی بھی ملک کے خلاف طاقت کے استعمال کی مذمت کرتا ہے۔ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے خلاف ہے۔ پاکستانی حکام نے واضح کیا کہ یہ اقدام خطے میں جاری امن کوششوں کو سبوتاژ کرے گا۔ نتیجے کے طور پر، صورتحال مزید پیچیدہ ہو جائے گی۔
مشرق وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی اور پاکستان کا موقف
مشرق وسطیٰ میں حالیہ فوجی کارروائیاں اور جوابی اقدامات خطے کو جنگ کے دہانے پر لا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی کشیدگی نے عالمی سطح پر تشویش پیدا کر دی ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے مشرق وسطیٰ میں امن کا خواہاں رہا ہے۔ چنانچہ، اس نے بارہا تمام اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا ہے کہ وہ پرامن حل کی طرف جائیں۔ وزیراعظم کے بیان میں اقوام متحدہ پر بھی زور دیا گیا۔ مزید برآں، دیگر بین الاقوامی اداروں سے بھی کہا گیا کہ وہ اس صورتحال میں اپنا کردار ادا کریں۔ انہیں تمام فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہیے۔
سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یکطرفہ فوجی کارروائیاں علاقائی تنازعات کو مزید بھڑکا سکتی ہیں۔ خاص طور پر، یہ خطے کے ممالک کے لیے نئے چیلنجز پیدا کر سکتی ہیں۔ پاکستان کا واضح موقف ہے کہ فوجی مہم جوئی سے گریز کیا جانا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ، یہ خطے کو بڑے پیمانے پر تنازعے کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ پاکستان نے بین الاقوامی میڈیا کے سامنے بھی اپنا موقف اجاگر کیا ہے۔ یہاں تک کہ، اس نے پُرامن حل اور سفارت کاری کے ذریعے مسائل کے حل کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
نوٹ: یہ خبر مختلف مقامی اور بین الاقوامی خبر رساں اداروں (جیو نیوز، ڈان نیوز، دی نیوز انٹرنیشنل) سے حاصل کردہ معلومات اور وزیراعظم پاکستان کے جاری کردہ بیان پر مبنی ہے۔