سپریم کورٹ کا 11 رکنی بینچ ٹوٹ گیا
پاکستان کی سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت کرنے والا 11 رکنی آئینی بینچ آج (جمعہ، 27 جون 2025) اس وقت ٹوٹ گیا جب جسٹس صلاح الدین پنہور نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا۔ اس پیش رفت نے ایک ہائی پروفائل کیس میں نیا موڑ پیدا کر دیا ہے جس کے ملک کی سیاسی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے سماعت کے آغاز پر ہی اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد سب سے اہم ہے، اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب کسی فریق کو ججز پر کوئی اعتراض نہ ہو۔ انہوں نے وضاحت کی کہ وکیل حامد خان نے بینچ میں شامل کچھ ججز پر اعتراضات اٹھائے ہیں، اور وہ خود بھی ان ججز میں شامل ہیں جن پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس بنا پر، جسٹس پنہور نے مزید اس کیس کی سماعت جاری رکھنے سے معذرت کر لی۔
جسٹس پنہور نے ججز پر جانبدارانہ ہونے کے الزامات کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ ایسے الزامات عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ذاتی طور پر وکیل حامد خان کے طرز عمل سے رنجیدہ ضرور ہیں، لیکن ان کے لیے ذاتی جذبات سے زیادہ ادارے کا وقار اور عدالتی نظام پر اعتماد اہم ہے۔
کیس کی موجودہ صورتحال اور آئندہ سماعت
اس دوران، بینچ میں شامل دیگر ججز، خاص طور پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل حامد خان کے رویے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ بینچ کی موجودہ صورتحال حامد خان کے طرزِ عمل کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ عدالت نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے کل کے دلائل سے ان کا دل دکھا ہے، اور یہ کہ وکیل کو بینچ پر اعتماد نہیں ہے۔
مخصوص نشستوں کا یہ کیس اس وقت سپریم کورٹ میں نظرثانی کے لیے زیر سماعت ہے جب گزشتہ فیصلے میں پاکستان تحریک انصاف (PTI) کو مخصوص نشستوں کا حقدار ٹھہرایا گیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
جسٹس صلاح الدین پنہور کی علیحدگی کے بعد، اب اس کیس کی آئندہ سماعت کے لیے ایک نئے بینچ کی تشکیل یا موجودہ بینچ میں تبدیلی پر غور کیا جائے گا۔ یہ پیش رفت کیس کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے اور اس کے حتمی فیصلے میں مزید تاخیر کا سبب بن سکتی ہے۔ اس تمام صورتحال سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام شفافیت اور عوام کے اعتماد کی برقراری کے لیے کس قدر حساس ہے۔