پاکستان کی 26ویں آئینی ترمیم: عدلیہ کی آزادی پر سوالات
اسلام آباد — پاکستان کی 26ویں آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ کے ڈھانچے اور ججوں کی تقرری پر گہرے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ناقدین کا دعویٰ ہے کہ یہ ترمیم عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرتی ہے۔ مزید برآں، یہ سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کے حوالے سے ریاستی اداروں سے امیدوں کو بھی معدوم کر رہی ہے۔ یہ ترمیم اکتوبر 2024 میں منظور ہوئی تھی، اور تب سے قانونی و سیاسی حلقوں میں اس پر شدید بحث جاری ہے۔
26ویں ترمیم کے بعد عدلیہ کی صورتحال اور عمران خان پر اثرات
عدلیہ کی صورتحال: 26ویں آئینی ترمیم نے پاکستان کے عدالتی نظام میں کئی بنیادی تبدیلیاں لائی ہیں۔ خاص طور پر، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے حوالے سے۔ اس ترمیم کے ذریعے چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کا طریقہ کار بدل گیا ہے۔ پہلے سینئر ترین جج کی تقرری کا اصول تھا۔ اب ایک “خصوصی پارلیمانی کمیٹی” کو تین سینئر ترین ججوں میں سے چیف جسٹس کا انتخاب کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس کمیٹی میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین شامل ہیں۔ ظاہر ہے، اس سے عدالتی تقرریوں میں سیاسی اثر و رسوخ بڑھا ہے۔
علاوہ ازیں، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (JCP) کی ساخت بھی بدلی ہے۔ اب اس میں پارلیمان کے اراکین کو زیادہ نمائندگی ملی ہے۔ پہلے JCP میں ججوں کی اکثریت تھی، مگر اب سیاسی تقرریوں کی اکثریت ہے۔ اس کے نتیجے میں، ججوں کے انتخاب میں حکومتی مداخلت کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ اس ترمیم نے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس (suo motu) کے اختیارات کو بھی محدود کر دیا ہے۔ کئی قانونی ماہرین اسے عدالتی نظام پر حکومت کے کنٹرول کو مضبوط کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ نیویارک سٹی بار ایسوسی ایشن اور انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس (ICJ) جیسی بین الاقوامی تنظیموں نے بھی 26ویں ترمیم کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔
عمران خان کی رہائی پر اثرات: سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (PTI) کا مؤقف ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد عدالتوں کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے ان کی رہائی کے امکانات کم ہو گئے ہیں۔ عمران خان نے متعدد بار دعویٰ کیا ہے کہ ان کے خلاف دائر مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں۔ یہ انہیں قید رکھنے کا ایک بہانہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام جمہوری راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ اس لیے اب ریاستی اداروں سے انصاف کی کوئی امید نہیں۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مقدمات کی سماعت میں غیر معمولی تاخیر ہوتی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کیسز بے بنیاد ہیں۔ ان کا مقصد صرف عمران خان کو جیل میں رکھنا ہے۔ بیرسٹر گوہر علی خان نے حال ہی میں ایک بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کوئی ڈیل نہیں کریں گے۔ ان کی رہائی کے لیے ریلیف صرف عدالتوں سے حاصل کیا جائے گا۔ تاہم، 26ویں ترمیم کے بعد عدالتی آزادی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ لہٰذا، پی ٹی آئی کے حامیوں میں یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ حکومتی مداخلت کے باعث انہیں منصفانہ سماعت اور رہائی میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ماہرین کی آراء: قانون دانوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم نے عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان طاقت کا توازن بگاڑ دیا ہے۔ شہاب اوستو ایڈووکیٹ کے مطابق، اس ترمیم کا بنیادی مقصد اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو کنٹرول کرنا ہے۔ نیز، انہیں حکومت کے خلاف فیصلے کرنے سے روکنا ہے۔ بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ترمیم “پسندیدہ” ججوں کی تقرری کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ یہ قانون کی حکمرانی اور غیر جانبدارانہ انصاف کی فراہمی کو متاثر کر سکتی ہے۔ البتہ، حکومتی حلقے اس ترمیم کو پارلیمان کی بالادستی اور عدالتی نظام میں شفافیت لانے کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔
مجموعی طور پر، 26ویں آئینی ترمیم نے پاکستان کے سیاسی اور عدالتی منظر نامے پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ عمران خان کی رہائی کے معاملے میں اس کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔ کیا یہ ترمیم واقعی عدلیہ کی آزادی کو متاثر کر رہی ہے؟