فائر بندی کے بعد تل ابیب میں 17 فوجی کارگو طیاروں کی آمد
تل ابیب، اسرائیل — ایران اور اسرائیل کے درمیان حال ہی میں فائر بندی ہوئی۔ اس کے باوجود، تل ابیب کے بین گوریون ہوائی اڈے پر 17 فوجی کارگو طیارے اترے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق، ان میں ممکنہ طور پر فوجی سازوسامان اور امداد شامل ہے۔ یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب علاقے میں کشیدگی کم ہونے اور امن کی امید پیدا ہوئی تھی۔
حال ہی میں امریکہ کی ثالثی میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ تنازعہ ختم ہوا۔ نتیجتاً، فائر بندی کا اعلان کیا گیا۔ اس تنازعے کے دوران دونوں طرف سے حملے ہوئے، جس سے بھاری جانی و مالی نقصان ہوا۔ عام طور پر، اس فائر بندی کو خطے میں استحکام کی جانب ایک قدم سمجھا جا رہا تھا۔ تاہم، تل ابیب میں فوجی کارگو طیاروں کی مسلسل آمد نے مبصرین کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس سے یہ سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ آیا اسرائیل کو مزید فوجی امداد مل رہی ہے، اور اس کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟
فوجی امداد کی نوعیت اور علاقائی اثرات
مشرق وسطیٰ کے ذرائع ابلاغ، خاص طور پر عرب اور ایرانی خبر رساں اداروں نے، ان طیاروں کی لینڈنگ کی تصاویر اور رپورٹس جاری کی ہیں۔ ان رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ طیارے مغربی ممالک، بالخصوص امریکہ اور جرمنی سے آئے ہیں۔ مزید برآں، ان میں فوجی سازوسامان اور امدادی سامان شامل ہے۔ اگرچہ اسرائیلی دفاعی وزارت نے لائے گئے سامان کی نوعیت کے بارے میں کوئی تفصیلات جاری نہیں کیں۔ لیکن، ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سامان اسرائیل کی دفاعی صلاحیتوں کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے غزہ میں جنگ شروع ہوئی۔ اس کے بعد سے، اسرائیل کو امریکہ سے بڑے پیمانے پر فوجی امداد موصول ہو رہی ہے۔ ان میں گائیڈڈ میزائل، توپ خانے کے گولے، اور جدید دفاعی نظام شامل ہیں۔ امریکی حکام نے پہلے بھی اسرائیل کو بھاری بموں کی ترسیل کی تصدیق کی ہے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق، اکتوبر 2023 سے اب تک 800 سے زائد فوجی کارگو طیارے اسرائیل پہنچ چکے ہیں۔
فائر بندی کے بعد کے خدشات
فائر بندی کے بعد بھی اس طرح کی فوجی نقل و حرکت کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ ایک طرف، یہ اسرائیل کی جانب سے اپنی دفاعی تیاریوں کو جاری رکھنے کی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کسی بھی ممکنہ مستقبل کے چیلنج کا مقابلہ کیا جا سکے۔ دوسری طرف، اس سے ایران اور خطے کے دیگر ممالک میں تشویش بڑھ سکتی ہے۔ یہ ممالک فائر بندی کے بعد امن و استحکام کی توقع کر رہے تھے۔
فائر بندی کے بعد بھی فوجی امداد کی مسلسل فراہمی خطے کی نازک صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ ایران اور خطے کے دیگر ممالک اس پیش رفت پر کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اور کیا اس سے فائر بندی کے معاہدے پر کوئی منفی اثر پڑتا ہے؟
ماخذ: یہ خبر مختلف بین الاقوامی اور علاقائی خبر رساں اداروں، جن میں اناطولیہ ایجنسی، دی یروشلم پوسٹ، المیادین، اور مہر نیوز ایجنسی شامل ہیں، کی رپورٹس پر مبنی ہے جو 19 سے 26 جون 2025 کے درمیان شائع ہوئیں۔