شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس: پہلگام واقعہ پر مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہو سکا
(قنگداؤ، چین) – شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے وزرائے دفاع کے حالیہ اجلاس میں، بھارت نے پہلگام میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعے پر اپنی تشویش ظاہر کی۔ تاہم، تنظیم نے مشترکہ اعلامیہ میں بھارت کے اس موقف کو شامل کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً، کوئی مشترکہ بیان جاری نہیں ہو سکا۔ ذرائع کے مطابق، بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اس مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ 22 اپریل کو پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ دوسری طرف، بلوچستان میں پیش آنے والے واقعات کا حوالہ دیا گیا تھا۔
اجلاس چین کے شہر قنگداؤ میں منعقد ہوا تھا۔ اس میں خطے کی سیکیورٹی، دہشت گردی کے خلاف تعاون، اور علاقائی استحکام جیسے اہم امور زیر بحث آئے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے 10 رکن ممالک کے وزرائے دفاع نے شرکت کی۔ ان میں چین، روس، پاکستان، اور بھارت شامل تھے۔
بھارت نے پہلگام حملے کو “دہشت گردی کی گھناؤنی کارروائی” قرار دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خلاف کوئی دوہرا معیار نہیں ہونا چاہیے۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے واضح کیا کہ بھارت دہشت گردی کے خلاف ‘زیرو ٹولرنس’ کی پالیسی پر گامزن ہے۔ ملک کو اپنی سرزمین کے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے سرپرستوں اور معاونین کو نتائج بھگتنے ہوں گے۔ ایسے عناصر کو پناہ دینے والے ممالک کی مذمت ہونی چاہیے۔
مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہونے کی وجوہات
تاہم، ذرائع ابلاغ کے مطابق، مشترکہ اعلامیہ میں پہلگام کے واقعے کا ذکر نہ ہونے کی وجہ پاکستان اور چین کا اس معاملے پر مختلف موقف تھا۔ اس کے بعد بھارت نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق، مسودہ میں بلوچستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ اس پر بھارت نے یہ موقف اپنایا کہ یہ اس کے مؤقف کو کمزور کرے گا۔ اس طرح، دفاعی وزراء کے اجلاس کے اختتام پر کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہو سکا۔
واضح رہے کہ 22 اپریل کو پہلگام میں ہونے والے حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں سیاح بھی شامل تھے۔ بھارت نے اس حملے کا الزام لشکر طیبہ سے منسلک ‘دی ریزسٹنس فرنٹ’ (TRF) پر عائد کیا ہے۔ اس کے بعد بھارت نے “آپریشن سیندور” کے تحت جوابی کارروائیاں بھی کیں۔ اس واقعے نے پاک-بھارت تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا کر دی ہے۔
اس اجلاس میں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف بھی شریک تھے۔ تاہم، دونوں ممالک کے وزرائے دفاع کے درمیان کوئی باقاعدہ دوطرفہ ملاقات شیڈول نہیں تھی۔ یہ SCO اجلاس ایسے وقت میں ہوا جب خطے میں سیکیورٹی چیلنجز اور بڑھتی ہوئی علاقائی کشیدگی کے باعث رکن ممالک کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔